کشتیاں ساحلوں پہ لوٹ آئیں

کشتیاں ساحلوں پہ لوٹ آئیں
اس طرف دور تک سمندر تھا
کیا کریں ہم تمہارے آوارہ
بند گلیاں اگر نصیب میں ہوں
طائران قفس نصیب ہیں ہم
پھڑ پھڑانا خوشی سمجھتے ہیں
احتراماً اداس لوگوں کی
بستیوں میں قدم نہیں رکھتے
وارداتِ سفر سے واقف ہوں
آبلوں کو شمار کیا کرنا
آپ کو دیکھ بھی لیا ہوتا
آئینوں سے پرے نہیں جھانکا
شہر سہما ہوا ہے یوں گویا
ہم کسی خوف کے غلام ہوئے
مدتوں بعد ہم نے جانا ہے
یہ خدا بھی کوئی ریاضت ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *