اشکِ خون
انسانی آزادی کی علمبردار قومو
اپنے اپنے کرم خوردہ علم جھنجھنا کر دیکھو
دیمک کسے مٹی اگلتے ہیں
ہماری لاشیں تمہاری پیشانیوں پر سجی ہیں
اور ہمارے جلے ہوئے گھروں کا ملبہ
تمہارے سینوں پر آویزاں ہے
آزادی کی آرزو ہمارا جرم ہے
اسے اپنی اپنی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھ لینا
یہ بھی لکھ لینا
مجرموں کو صلیبوں پر لٹکا دیا گیا
ان کی معصوم نسلوں سمیت
عظیم بھارت
مظلوموں کا خون تمہاری مکروہ عظمت کو سلام کرتا ہے
اور کرتا رہے گا جیسے جیسے بہتا رہے گا
ہمارے زندہ جسموں اور تابندہ تمناؤں کی راکھ
تمہارے بالوں کی زینت بنتی رہے گی
جیسے جیسے اڑتی رہے گی
ہماری قبریں تمہارے جبر پر دمکتی رہیں گئ
ہماری فریاد ہماری کراہیں تمہارے کانوں میں گونجتی رہیں گی
ہماری مظلومیت تمہاری آنکھوں کے سامنے ناچتی رہے گی
عظیم بھارت
عظیم بھارت تم بہت حقیر ہو
بہت حقیر
فرحت عباس شاہ