کشمکش

کشمکش
مجھے بے پناہ سروں میں بانٹ گئے عذاب کے سلسلے
مری تار تار میں بج رہا ہے سکوت حاکم وقت کا
مرے ہر سفر میں رہا ہے مسئلہ رخت کا
کسی خشک رُت کے نواح میں
مجھے دھوپ سونپ گئی ہے کام درخت کا
جسے بھوک کھیلنی آگئی ہو خوشی خوشی
اسے کیسا درد کسی کے پائیہ تخت کا
مرے آسمانوں پہ کیس جھگڑا کھڑا ہوا مرے بخت کا
کوئی التجا مرے دکھ کے حکم سے لڑ گئی
کوئی بدعا مری بدنصیبی کے سرد سینے میں گڑ گئی
مرے ساز ساز میں کشمکش
مرے راز راز میں کشمکش
مری عقل و فکر کے اختیار میں کشمکش
مری چشم اور لبِ نیم باز میں کشمکش
دلِ ناسمجھ، دکِ چالباز میں کشمکش
مرے ہر نیاز میں کشمکش
مرے اختیار میں کشمکش
مرے انتظار میں کشمکش
مری زندگی کے ہر اک حصار میں کشمکش
مجھے لے چلے مجھے لے چلے
مرے ارد گرد گنہ ثواب کے سلسلے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *