کلاس روم

کلاس روم
غموں کی روشنائی سے۔۔۔ دل بیمار کے اوراق پر۔۔
۔۔۔لکھے سبق کو کون پڑھتا ہے
کسے فرصت
کہ اپنی نوٹ بک سے اک ذرا نظریں ہٹا کر
ساتھ والے کی لرزتی انگلیوں کو غور سے دیکھے
ہم اتنی دیر سے
اک ساتھ پڑھتے آ رہے ہیں جن کلاسوں میں
وہاں
لفظوں کی تاریکی میں
لیکچر دینے والے لب
ہمیں اک دوسرے کی روح کے معنی بتانے سے مکمل طور پر معذور ہیں
اور ہم کسی ڈسٹر، کسی تختے کے کالے پن، کسی تکلیف کو آواز دیتے
چاک پر آنکھیں جمائے، بت بنے
ویران مستقبل کی کھڑکی کو
کتابوں کی پھٹی جلدوں سے ڈھانپے، اونگھتے ہیں
یا کسی بوڑھی پریشانی کے خدشے سے
ذرا پہلو بدل کر، بس کبھی کچھ کھانس لیتے ہیں
غموں کی روشنائی سے۔۔ دل بیمار پر۔۔ لکھے سبق کو کون پڑھتا ہے
ہمیں مدت ہوئی، اڑتے ہوئے کمروں میں
سوکھے، زرد، پتھریلے، سلیسیں چاٹتے، مدت ہوئی
اور ہاں، بہت مدت ہوئی
ہم نے کبھی کوئی شرارت بھی نہیں دیکھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *