تم سے بچھڑا تو ہوا چھوٹے سے گھر تک محدود
چھاؤں سے نکلو تو موسم ہی بدل جاتا ہے
عشق کی دھوپ ہے بس اپنے شجر تک محدود
تیرا اک جا پہ ٹھہرنا بھی خلاؤں پہ محیط
میری آوارہ مزاجی بھی نگر تک محدود
حلقہ فکر ترے اذن تجسس کے خلاف
ہم نے پھیلایا تری ذات کے ڈر تک محدود
تیری مرضی کہ بڑھایا مجھے کچھ کم کر دے
مری طاقت ہے ترے دل کے اثر تک محدود
اپنے کاندھوں پہ اٹھا کر میں چلوں یا سر پر
اپنی اوقات ہے اس زاد سفر تک محدود
وقت کی کون سی تقسیم پہ ممنون رہوں
رات کی ساری ریاضت ہے سحر تک محدود
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)