تُو تو حیران نہ ہو
بے بسی باعث آزار بھلا کب سے نہ تھی
کب بھلا دھجیاں اس روح کو عریاں نہ کیے دیتی تھیں
پیٹ نے کونسا میدان نہ مارا دل کا
ہاتھ ٹوٹے تو قفس اور بھی مضبوط ہوا
آنکھ پھوٹی تو بڑھی اور بھی تاریکی شب
خون بکتا ہے نوالوں کی خریداری کو
وہ مسیحائی جو کچھ اور بڑھا دیتی ہے بیماری کو
ہو میسر بھی تو چارہ کیسا
جبر جابر ہو
تو کون آتا ہے غمخواری کو آج مجبوری کی سیہ
غار سے نکلے ہوئے اور بپھرے ہوئے ہاتھ اگر
گردنیں ریشہ کیے دیتے ہیں پل بھر میں تو حیرت کیسی
آج میزان لرزتا ہے اگر ہاتھوں میں۔۔۔ اور
جو پلڑے کسی منحوس اشارے سے الٹ جاتے ہیں
آج اگر سینہ انصاف میں اترا ہے کوئی تیرِ دراز
آج منصف ہی اگر قاتل ہے
اور مقتل ہی عدالت ہے تو حیرت کیسی
تُو تو حیران نہ ہو
تو ہی کہتا ہے کہ ہو اور وہ ہو جاتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)