تیز لہروں پہ تیرا زور نہ تھا
بادباں تھے
ہواؤں کے بس میں
میں تجھے مانگتا رہا لیکن
تُو نہیں تھا
دعاؤں کے بس میں
ساحلوں نے تجھے امان نہ دی
اور تُو
موج موج زد میں رہا
تیری چاہت سے تھا پرے شاید
وہ کنارا
جو تیری حد میں رہا
اور پھر بارہا نہیں معلوم دوسری سمت اپنا رُخ کر کے
تُو نے جانے کِسے صدا دی تھی
تُو نے جانے کِسے پکارا تھا
میں نے چُپ چاپ دور سے دیکھا
میں ترا آخری کنارا تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)