ابھی تک شہر سے رُوٹھا ہوا ہے
ہمی کیسے کہیں اس دل کو سچا
ہمارے سامنے جُھوٹا ہوا ہے
کسی کا کچھ نہیں اپنا یہاں پر
یہ سب سامان ہی لُوٹا ہوا ہے
تمہارے دل میں میری چاہتوں کا
کوئی تو بیج سا پُھوٹا ہوا ہے
کسی کے نام لگ جائے بلا سے
یہ دل پہلے سے ہی ٹُوٹا ہوا ہے
فرحت عباس شاہ