کہانی

کہانی
کہانی
چاند رات کی کونسی کہانی تھی؟
جس میں ایک شہزادی تھی
جو ہر چودھویں کی رات اپنے محل سے باہر آتی
اور چاند جھجک جاتا تھا
شہزادی اس رات جس بھی سوکھے ہوئے شجر کو چھو لیتی
وہ ہرا ہو جایا کرتا
کیا تم نے کبھی ایسی کوئی کہانی سنی ہے؟
نہیں سنی
میں نے بھی نہیں سنی
لیکن مجھ پر یہ کہانی بیتی ضرور ہے
اس د ن جب تم اپنے محل سرا سے نکلیں
اور میرے خزاں زدہ جنگل کا رخ کیا
میں جو ایک صدیوں پیاسا اجڑا ہوا درخت تھا
تمہارے معجز نما لمس کے باعث سر سبز ہوا
اور مجھے لگا جیسے میری جڑیں پھر سے زندہ ہو گئی ہوں
تمہیں پتہ ہے
پھر اس درخت نے کیا کہا؟
نہیں پتہ
اس درخت نے ایک عہد کیا
وہ جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے
کبھی نہ کرے کہ شہزادی کو دھوپ آئے
اور کاش میں اسی آس میں ہی باقی زندگی بتا دوں
شہزادی پر گرم دھوپ کی ہلکی سی آنچ بھی نہ پڑنے دوں
درخت نے سوچا
اور شدت سے خواہش کی
کاش میں چل سکتا
شہزادی کے محل تک جاتا
اور اس کی کسی نہ کسی دیوار پہ سایہ کیے رکھتا
ہو سکتا ہے شہزادی محل کے اندر کی طرف سے
اس دیوار کے پاس سے گزرتی ہو
اس وقت تک سایہ کیے رکھتا
جب تک محل کے باسی مجھے کاٹ نہ دیتے یہ کہہ کر
کہ محل کی خوبصورتی میں بگاڑ کا باعث بن رہا ہے
درخت بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں
اپنی چند سالہ زندگی کے لیے
اوروں کے دست نگر، مجبور اور خود غرض
کبھی کبھی وہ درخت خود غرضی سے سوچتا
کاش شہزادی، شہزادی نہ ہوتی
ایک چھوٹی سی معصوم چڑیا ہوتی
ا س کی شاخوں میں گھونسلا بنا کر رہا کرتی
وہ اپنی تمام شاخیں اور ٹہنیاں اس کے گھونسلے کے گرد مضبوطی سے کسی شکاری
کسی خطرناک پرندے
اور کسی تیز رفتار، جھونکے اور آندھی کو اس کی طرف کبھی بڑھنے نہ دیتا
چڑیا ہر صبح اس کی شاخوں پر بیٹھ کے چہچہاتی
کبھی اس ٹہنی پر اور کبھی اس ٹہنی پر
گیت گاتی، مسکراتی اور اس سے باتیں کرتی
پھر شام ہوتی
وہ اسے خامشی کی نرم اور لطیف لوری سنا کے سلا دیتا
کاش۔۔۔ کاش۔۔۔
پھر وہ درخت چونک پڑتا
اور شرمندہ ہوتا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *