محبت نے کبھی مجھے تمہاری راہ سے ہٹنے نہیں دیا
میں جب اپنا آخری کھلونا ٹوٹ جانے کے غم میں
تمہیں دیکھنے سے گریز کی سڑک پر
عین درمیان میں بھاگ رہا تھا
میں عجیب تھا
اور میں نے اپنے کسی پُرانے زخم سے ٹھوکر کھائی تھی
میرے تمام کے تمام نئے زخم منہ کے بل گرے
بے اختیار میرے منہ سے تمہارا نام نکلا
لیکن میں کبھی تمہیں بدعا نہیں دے سکا
شاید میں تم سے محبت کرتا رہوں گا
چاہے میرے درد ہر بار مجھے بے سہارا کر کے
تمہاری محبت کی راہ پر پھر سے کیوں نہ چھوڑ جائیں
میرے پاس اب کھلونے نہیں ہیں
بس کرچیاں ہی کرچیاں ہیں
جو میری پوروں اور آنکھوں میں چُبھتی رہتی ہیں
کرچیاں چُبھتی رہتی ہیں
اور میں تمہاری محبت کی راہ پر چلتا رہتا ہوں
فرحت عباس شاہ