چار سو ہیں اداسیاں جاناں
ورنہ اک روز مل ہی جاتے ہم
عمر آئی ہے درمیاں جاناں
تم کو دھوکہ ہوا تھا بارش کا
رو دیا ہو گا آسماں جاناں
ہجر ہر موڑ پر کھڑا ہوگا
بھاگ کر جاؤ گے کہاں جاناں
شام ہوتے ہی چھیڑ دیتا ہے
دل مرا دکھ کی داستاں جاناں
دل نے پھر چھیڑ دی غزل کوئی
پھر طبیعت ہوئی رواں جاناں
ایک دنیا ہوئی ہے فرحت سے
تم بھی ہو جاؤ بد گماں جاناں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)