محبت بن سفر ممکن نہیں ہے
خدا جیسی ہے کچھ اس میں بھی خوبی
وہ آجائے نظر ممکن نہیں ہے
تمہاری یاد بن اے نغمہِ جاں
مری شب ہو بسر ممکن نہیں ہے
تمہارے بن مرے دل کے نگر میں
کسی کا بھی گزر ممکن نہیں ہے
محبت نے کیا بے باک، اور اب
کوئی خوف و خطر ممکن نہیں ہے
یہ کس امکان کو پانے چلے ہو
کہ چھوڑو بھی اگر ممکن نہیں ہے
خود اپنے آپ کو تم سے علیحدہ
میں کر تو لوں مگر ممکن نہیں ہے
اگر لگ جائے دل کو دھیان کوئی
تو پھر اپنی خبر ممکن نہیں ہے
تمہیں دکھ ہی نہیں ہے میرے پیارے
جو دکھ ہو تو جگر ممکن نہیں ہے
مرا غم سنگ ہوتا جا رہا ہے
مرے غم پر اثر ممکن نہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)