محبت میں نہ جانے فاصلوں کی ریت کیسی ہے
کہیں الفاظ کے انبار ہیں پر لکھ نہیں سکتے
کہیں جذبوں کی یورش ہے
مگر کچھ کہہ نہیں سکتے
کہیں کچھ بھی نہیں ہے
پھر بھی کہنا لکھنا پڑتا ہے
کبھی احساس پوروں کے کناروں پر اگا ہے
پھر بھی اس کو چھو نہیں سکتے
کبھی خود لمس اتنا دور ہے کہ خواب سا محسوس ہوتا ہے
کبھی خوش ہیں
تو پلکوں کی نمی سے پھوٹتی لرزش نہیں جاتی
کبھی دل کرب کی شدت سے جیسے پھٹ رہا ہوتا ہے
لیکن ہنسنا پڑتا ہے
محبت میں نہ جانے فاصلوں کی ریت کیسی ہے
اسے بے چہرگی کا دکھ کہوں یا بے بسی کا دکھ
اسے واپس پلٹنا پڑ گیا ہے
اور مجھے کہنا پڑا ہے
راستے لوٹا نہیں کرتے
فرحت عباس شاہ