تم تو بس ایک ہی دُکھ پوچھتے ہو
کون سے دُکھ کی کریں بات ذرا یہ تو بتا
موسموں ،سرد ہواؤں کی مسیحائی کا دُکھ
راہ کی دُھول میں بکھری ہوئی بینائی کا دُکھ
سنگ کے شہر میں خود دُکھ سے شناسائی کا دُکھ
یا کسی بھیگتی برسات میں تنہائی کا دُکھ
کون سے دُکھ کی کریں بات کہ دل کا دریا
اتنی تغیانی کی زد پر ہے کہ کچھ یاد نہیں
کب ہمیں بھول گیا کون سے ہرجائی کا دُکھ
تم تو بس ایک ہی دُکھ پوچھتے ہو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)