مضمحل کیسے ہوئے
کس نے کیا اتنا اداس
چلتے چلتے جو کسی روئی ہوئی یاد سے ٹھوکر کھائی
ہولے ہولے سے سسکتی ہوئی تنہائی میں
لڑکھڑایا جو کسی بیتے ہوئے دن کا خیال
ملگجی روشنیاں رات بڑھا دیتی ہیں
ڈھانپ دیتی ہیں گھٹائیں جو کبھی سورج کو
آنکھ بھی ایسے خیالات سے بُجھ جاتی ہے
دل کی ویران سڑک اور خموشی ہر سُو
ایک پتہ بھی کھٹک جائے تو ڈر جاتی ہے
نیم سوئی ہوئی خواہش ترے آجانے کی
نیم بیدار تمنا کی خلش کون سنے
ہاتھ میں تھامے ہوئے اُجڑا ہوا ہجر، ہوا آتی ہے
چھو کے رخسار گزر جاتی ہے
اور کوئی زرد دلاسہ بھی نہیں دیتی ہمیں
خشک آنکھوں میں لگا جاتی ہے ہر بار نئے غم کی خراش
بہنے لگتی ہے خزاں کاجل سے
بھولنا اس سے تو بہتر ہے اگر بس میں ہو
کون ان سنگ زدہ راہوں میں ٹکراتا پھرے
جا بہ جا اُبھرے ہوئے لمحوں سے
پوچھتا کون پھرے کس نے کیا اتنا اداس
مضمحل کیسے ہوئے
کون ہمیں یاد آیا
فرحت عباس شاہ