کونسی سوچ ترے راز تلک پہنچی ہے
کونسے دکھ نے ترا راستہ دکھلایا ہے
ہر کوئی راہ سے بس راہ میں چھوڑ آیا ہے
ہم نے خود کو بھی کئی بار یہ سمجھایا ہے
دایرے درد میں لپٹے رہیں یہ بھی سچ ہے
بے بسی بھی رچ بس جائے
بے کسی بڑھتی چلی جائے تو یہ بھی سچ ہے
جھوٹ بس وہ ہے جہاں قافلے آکر رُک جائیں
جھوٹ وہ ہے جو ارادوں کی تسلی بن جائے
جھوٹ وہ ہے جو ہمیں حاصل ہو
آخری کون ہے اجک تیرے سوا
کون پہلا ہے یہاں
ایک دنیا جسے اک دنیا نے تڑپایا ہے
ہر کوئی راہ سے بس راہ میں چھوڑ آیا ہے
فرحت عباس شاہ