یہ اجل بھی کیا ہے کسی کا ڈر بھی نہیں اسے
مرے بادشاہ کہاں ہو اے مرے بادشہ
تری سر زمین پہ خوف پھرتا ہے ناچتا
کبھی خامشی سے بچا لیا کسی وہم نے
کبھی شور غل سے بچا کے لے گئی آرزو
شبِ رائیگاں کی خلش میں صبحیں بدل گئیں
کہیں خاردار صبا تھی اور کہیں دھول تھی
مجھے آدھے عشق کا درد اٹھتا ہے رات دن
مجھے آدھی روٹی کا ڈر کبھی بھی نہیں رہا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)