خواب میں آ کر ہنستا ہے
سپنوں میں موجود نہیں
جس پر میرا وار چلے
آنکھوں کا ویرانہ تھا
ویرانے میں بارش تھی
لکڑی کے شوکیسوں میں
جذبے سجے ہوئے دیکھے
شامیں کان میں کہتی ہیں
تنہا باغ میں مت جانا
ٹوٹے پھوٹے فقروں سے
کیا مفہوم ادا ہو گا
درد زباں سے کہی ہوئی
باتیں کون سمجھتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – عشق نرالا مذہب ہے)