کوئی داستان بکھر گئی

کوئی داستان بکھر گئی
کوئی شخص ہے
جو اداس رات کی چارپائی پہ بیٹھ کر
کئی چھوٹے چھوٹے مسافروں کو سنا رہا ہے کہانیاں
کسی بادشاہ کے ظلم کی
کسی حکمران کے جبر کی
کسی لکھنے والے کے جھوٹ کی
کسی پڑھنے والے کی عقل کی
کسی رونے والے کے صبر کی
کسی ہنسنے والے کے کھوٹ کی
اسی رات گرتی ہے آسمان سے زندگی
تہِ آسمان کھجور کے کئی پیڑ ہیں
تہِ آسمان کھجور کی کسی داستان کی نوک پر
جو اٹک گئے تو اٹک گئے
اگر اور نیچے گرے تو گرتے چلے گئے
کئی دلدلیں ہیں جگہ جگہ
کئی جنگلوں کے فریب ہیں
جو بھٹک گئے تو بھٹک گئے
کئی حیرتیں ہیں قدم قدم
کئی خوف رکھے ہیں جا بہ جا
جو ٹھِٹک گئے تو ٹھِٹک گئے
کوئی شخص تھا
جو اداس رات کی چارپائی سے ٹوٹ کر
کئی چھوٹی چھوٹی مسافتوں میں اتر گیا
کوئی وہم تھا کہ مُکر گیا
کوئی آرزو تھی کہ ڈر گئی
کہیں بے بسی کی امان میں
کہیں بے حسی کی پناہ میں
کہیں تیرے میرے سکوت میں
کہیں تیرے میرے گناہ میں
کوئی داستان بکھر گئی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *