جو پکارتا ہے خدا۔۔۔۔ خدا
یہ کوئی تو ہے کہ جو عمر سے
ہمیں رکھ رہا ہے جدا جدا
جو درخت ہیں یہ تو یار ہیں
یہ جو دھوپ ہے یہ تو پیار ہے
وہی انتظار ملا مجھے
جسے چھوڑ آیا تھا راہ میں
ابھی دھند ہے مرے ہر طرف
ابھی زندگی کے نشے میں ہوں
تری زندگی بھی فریب ہے
مری زندگی بھی فریب ہے
فرحت عباس شاہ