کوئی دھڑکنوں کو بھی لے اڑا

کوئی دھڑکنوں کو بھی لے اڑا
مری نبض نبض پہ ہاتھ ہے کسی اور کا
مجھے کائنات کی دھڑکنوں میں سنائی دیتی ہیں چاہتیں
مرا دل کچھ ایسا نہیں کہ کان لگا کے تجھ کو سنائی دے
مری جاں کچھ ایسی نہیں کہ ڈوبے تو بوکھلا کے دہائی دے
مجھے تجھ میں سب سے الگ دھڑکنا ہے رات دن
یہ الگ، کہ تو بھی الگ نہیں
مگر اس طرح کہ اگر کوئی کبھی سانس لے تو وہ دوسرے کے
شفاف سینے کے آر پار دکھائی دے
یہ ہوا جو رستہ بھلا گئی
کسے یاد ہے
وہ وفا جو دل کو دکھا گئی
ہمیں یاد رہتی تو سب سناتے کہانیاں
اسے آسمان سے پیار ہے
مرا جسم و جان زمین پر
مگر اس کے بعد بھی گنتا رہتا ہے گنتا رہتا ہے دائرے
جو لہو میں بن کے بگڑ گئے
مری نبض میرے ہی بس میں ہوتی تو خُوب تھا
مری دھڑکنیں مرے ساتھ بجتیں
تو ٹھیک تھا کہ چلو کہیں سے کوئی تو لوٹا ہے شہر میں
یہ الگ کہ نبض کے شوق میں
کوئی دھڑکنوں کو بھی لے اڑے
مری نبض نبض پہ ہاتھ ہے کسی اور کا
ابھی ساتھ ہے کسی اور کا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *