کوئی رات تھی
مرے صحن میں کوئی رات تھی
اسی شب عجیب خموشیاں تھیں صداؤں میں
مجھے یوں لگا
کوئی رو رہا ہے ہواؤں میں
مجھے یوں گا
کوئی گردباد ہے کرب کا
مجھے نیند نیند دکھا دکھا کے پکارتا ہے خلاؤں میں
مرا زخم زخم جگا جگا کے سنوارتا ہے فضاؤں میں
کوئی اڑتی ریت پڑی جو منہ میں
تو کچکچا کے حواس پچ سے اُبل پڑے
یہ خوشی کا وقت نہیں تھا پھر بھی نجانے کتنے چلے چلائے لبوں سے دانت نکل پڑے
مجھے یوں لگا
سبھی سو رہے ہیں
یہاں کہیں کوئی جاگتا ہی نہیں ہمارے خداؤں میں
کئی سوگوار کھڑے تھے بستی کے چوک میں
جنہیں اطلاع ہی نہیں تھی وجہِ سکوت کی
مجھے یوں لگا
اسی کشمکش میں سکوت خود ہی یہ کہہ رہا ہے
کہ مر گیا
کوئی مر گیا
کوئی مر گیا
کوئی مر گیا ہے دعاؤں میں
فرحت عباس شاہ