مجھے خار خار میں رولنا ترے کھوج کا
مجھے راکھ راکھ میں تولنا تری موج کا
مری آہ و زاری کہاں گئی
میں نے کیا بگاڑا ہے آبگینوں کی فوج کا
مرا خواب ہے
میں سفر کروں تو
تو درمیان میں آپڑے
میں کسی دیار میں رہ پڑوں
تو مرے مکان میں آ پڑے
مجھے ذرہ ذرہ تری تلاش میں چومنا پڑا ڈھونڈکے
مجھے کوہسار اٹھا اٹھا کے
الٹ الٹ کے
پلٹ پلٹ کے تلاشنے پڑے رات دن
مرا اپنے آپ سے بولنا بھی صحیح نہیں
میرا ٹوٹتا ہے دھیان تیری تلاش میں
کوئی کھوج اپنے گیان سے ہے جڑا ہوا
کسی بے یقینی کی رات ہے
یہ بڑے اشارے کی بات ہے
اسے باندھ رکھنا ضرور صیغہِ ذات سے
فرحت عباس شاہ