کوئی ہے حصار کہ جس کی قید میں ہوں ابھی
جو نگر ہے اس کو سنبھال رکھنا بہت کہیں
جو عدو ہے اس کی نگاہ پہلے ہی ایسی ہے
بڑے دن گزار لیے جہان کے پیڑ پر
کسی شام شاخ سے ٹوٹ جائے گی زندگی
میں خیال و خواب کی کشمکش کا اسیر تھا
مجھے کھینچ کھانچ کے عشق لایا ہے راہ پر
مرے انکسار کو کمتری نہ سمجھ کہ یہ
مرے اپنے آپ پہ اعتماد کی دین ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)