کیا عجب شہر ہوا کرتا تھا اک پانی پر

کیا عجب شہر ہوا کرتا تھا اک پانی پر
رو پڑے لوگ مرے دل کی بیابانی پر
بات تو پھر ہے کہ جز حرف تسلی بھی ہو کچھ
یوں تو اک شہر اکٹھا ہے پریشانی پر
ہم پریشان کہ حالات سنبھالیں کیسے
اور وہ اترایا ہوا پھرتا ہے نادانی پر
بخش پہلے مجھے ہر سطح کے غم کے اوصاف
پھر مجھے بھیج دے اس عالم انسانی پر
شہر سے زیادہ جنھیں فکر تھی سو جانے کی
سو کے اٹھے ہیں تو حیران ہیں ویرانی پر
ہم سمجھتے تھے کہ چلائیں گے روئیں گے بہت
وہ تو ٹرخا گئے اک تھوڑی سی حیرانی پر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *