شام کے زرد کنارے کی طرح
دکھ ذرا دور سے کچھ اور نظر آتا ہے
جو اداسی مری دہلیز تک آتے آتے
سینکڑوں روپ بدل لیتی ہے
وہ مجھے تیری طرح لگتی ہے
اور جو بے چینی مجھے
لمحوں میں تبدیل کیے دیتی ہے
وہ مجھے تیری محبت کی طرح لگتی ہے
بے حجابی شبِ ویراں کی کہاں رہتی ہے
آنکھ کی اپنی حیاداری ضروری ہے بہت
آنکھ ہو گی تو سبھی رنگ دکھائی دیں گے
اور پھر قرب کی تفریق کا پیمانہ بھی
بس آنکھ میں ہے
تجھ کو دیکھوں یا ستارہ دیکھوں
اپنے پیمانوں سے پیمائش عالم کا عمل
بے طرح کی کوئی آسائشِ جاں اور خلل
میں ہمہ وقت بدلتی ہوئی تقدیر کی ہٹ لسٹ پہ ہوں
شور برپا ہے زمانے میں کسی اور زمانے کے سفر کرنے کا
بے سبب کچھ بھی نہیں ہے تو محبت کیا ہے
درد کے کتنے ہیں اسباب و علل
خوف بے چینی بڑھا دیتا ہے
عشق کچھ خوف گھٹا دیتا ہے
خوف اور عشق مگر دور سے کچھ اور نظر آتے ہیں
شام کے زرد کناروں کی طرح
چاند ستاروں کی طرح
کیا میں تقدیر کی ہٹ لسٹ پہ ہوں
فرحت عباس شاہ