کئی آرزویں مری ہوئی

کئی آرزویں مری ہوئی
مری ٹُنڈ مُنڈ مسافتوں کو تمام کر
کبھی لُولے لنگڑے مسافروں کا خیال رکھ
یہ جو ڈیڑھ ٹانگ پہ طے کیا ہے سفر نصیب کا آج تک
ترے راستوں کا مذاق اڑاتا رہا گھروں سے سماج تک
میں لٹک لٹک کے چلا تو راستے رو دیے
میں گھسٹ گھسٹ کے گرا تو زندگی ہنس پڑی
بڑی خوفناک ہنسی تھی بوڑھی خرانٹ کی
مری ٹُنڈ مُنڈ مسافتوں کو تمام کر
کوئی شام دے
کوئی پُر سکون سی شام دے
کوئی سبز رنگ کی پُر سکون سی شام ، شام کی زلف، زلف کی تازگی مرے نام کر
یہ عجیب دن، یہ عجیب دھوپ ملال کی
یہ سفر
یہ لنگڑا سفر
یہ چاہ وصال کی
مرے دل کی نیلی فضا میں ٹھہری ہوئی ہے کب سے زوال پر
مری منزلوں کو قیام دے
مجھے آدھے رستوں کی، آدھی ٹانگوں کی دلدلوں سے نکال دے
مجھے گود لے
مجھے پال لے
کئی آرزوئیں مری ہوئی مرے آس پاس اُگی ہوئی ہیں مری خموشی کے کھیت میں
کئی خواب دفن ہیں ریت میں
مجھے دیکھ دستِ دعا کے پوپلے جال میں
مجھے دیکھ
دستِ وفا کی لرزشِ عجز میں
کوئی بات ایسی ہے رجز میں
مری انگلیاں مرے اپنے چہرے میں کھبھ گئیں
مری بے زبان ہتھیلیوں میں بھی چھید ہیں
یہ جو آرزوئیں مری ہوئی ہیں یہ بھید ہیں
یہ جو خواہشیں ہیں خموش خانہِ خوف میں یہ بھی بھید ہیں
کوئی ایک بھید تو کھول، کوئی پیام دے
مجھے گم نہ کر
مجھے گم نہ کر
کوئی نام دے
کوئی پُر سکون سی شام دے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *