تیرے خواب میں جاگے اور بے تاب ہوئے
رستے دینے والے جانے کہاں گئے
رستہ روکنے والوں کی تو بھیڑ لگی
دھوپ کی خوشبو دور دور تک پھیلے گی
سوچ کے ماتھے پر سورج مہکاؤں گا
چپ کے بارے دل میں ایک تجسس ہے
تصویروں سے باتیں کرتا رہتا ہوں
گھوم گھوم کر گھومتے پھرتے رہتے ہیں
آوارہ لوگوں کی منزل کیا ہو گی
پل دو پل سے غم کے مارے آ جاتے ہیں
شب آتی ہے اور ستارے آ جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)