گردشِ کوئے ملامت نہیں دیکھی جاتی

گردشِ کوئے ملامت نہیں دیکھی جاتی
بدنصیبی کی امامت نہیں دیکھی جاتی
میری سچائی سے گھبرائی ہوئی ہے دنیا
شہر سے میری کرامت نہیں دیکھی جاتی
مجھ کو اس اجڑے ہوئے شہر سے باہر لے چل
مجھ سے ہر روز قیامت نہیں دیکھی جاتی
درمیاں تھوڑی سی مہلت بھی تو ہو جینے کی
آئے دن اک نئی شامت نہیں دیکھی جاتی
یا ذرا دور سے دکھلا یا گھما دے تھوڑا
آنکھ سے دکھ کی ضخامت نہیں دیکھی جاتی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *