ہم اکیلے ہیں بہت، ہم اکیلے ہیں بہت
ایک بس تو ہی نہیں شہر میں اشکوں کا اسیر
یہ ستارے مری پلکوں پہ بھی کھیلے ہیں بہت
اب میں کچھ زیادہ ترا ظلم نہیں سہہ سکتا
اب تو جیون میں مری جان جھمیلے ہیں بہت
پہلے دکھ بانٹ لیا کرتی تھی اکثر میرا
اب تو لگتا ہے ہوا کے بھی سہیلے ہیں بہت
میں خدا والا مگر اصل، کہاں سے لاؤں
ویسے اس بھیس میں شیطان کے چیلے ہیں بہت
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)