گزرگاہ

گزرگاہ
ویران گزرگاہوں کا سفر ایسا ہی ہوتا ہے
بیتے ہوئے وقت کو یاد کرنا
تمہارے بارے میں سوچنا
اور گھبرا کے کمرے میں ٹہلنا شروع کر دینا
کسی مخاطب شخص کی سننے کی بجائے
کہیں اور گم ہو جانا
اور جواباً ایک بے تعلق اور جھوٹی خاموشی سے
سر ہلاتے رہنا
کچھ لکھتے لکھتے اچانک کچھ اور لکھنے لگ جانا
اور بے خوابی سے ہار مان کے سوجانے کی خواہش ترک کر دینا
ویران گزرگاہوں کا سفر ایسا ہی ہوتا ہے
بہت سارے شور میں بولنا
اور بہت ساری بے معنی چپ میں چپ رہنا
یا جیسے
کبھی کبھی اپنی تنہائی کے تابوت سے نکل کے دوستوں کے ہمراہ چل پڑنا
ویران گزرگاہوں کا سفر ایسا ہی ہوتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *