گلہ کیسا

گلہ کیسا
تم کوئی گہرا کنواں تو بہر حال نہیں تھے
لیکن وہ تاریکی جو دور تک اتر جائے
اور وہ روشنی جو آنکھوں کے بہت نزدیک ہو
زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے
میرا دل کبھی تم سے پرے نہیں جھانک سکا
نہ ہی تمھیں اچھی طرح دیکھ سکا ہے
میں کبھی کبھی
ایک گہری کھائی سے آتی ہوئی اپنی آواز سنتا ہوں
جو تمھیں پکارتی ہے، پکارے ہی جاتی ہے
پھر نڈھال ہو کے ڈوب جاتی ہے
کراہوں کا اپنا الگ رنگ ہوتا ہے
مضمحل اور تلخ
آدھا زندہ، آدھا مردہ
گڑھا دیکھنا اور گر جانا
آگ محسوس کرتے ہوئے بھی کود پڑنا، جل جانا
سب جانتے بوجھتے ہوئے تباہی کے دہانے میں داخل ہو جانا
اور موت کو کھیلنے کے قابل بھی نہ سمجھنا
یہ تو پھر ہوتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *