آج تک
تم نے لکھا ہے
شاید کوئی کسی کو یاد کرتا ہے
’’شاید‘‘ مجھے اچھا لگا ہے
جیسے ایمان کی کوئی منزل ہو
متزلزل کرتا پھرتا ایمان
میں نے ایک بار سوچا تھا
شاید مجھے تم سے محبت ہے
پھر آج تک اس شاید کی پاداش میں
یقین بانٹتا پھرتا ہوں
روح پر بیتا ہوا یقین
محبت بھی عجیب شے ہے
ایک گمان
ایمان کی آخری منزل
جس سے ایک قدم پیچھے ہے
ایک بے یقینی
تمام تر یقین جس کے سامنے ادھورا ہے
تم نے لکھا ہے
شاید کوئی کسی کو یاد کرتا ہے
’’شاید‘‘ مجھے بہت اچھا لگا ہے
فرحت عباس شاہ