سو سے بچتا ہے تو سو درد سے بھر جاتا ہے
زندہ ہوتا ہے تو اک تیرا پتہ دیتا ہے
وہ ستارہ جو مری آنکھ میں مر جاتا ہے
دن ترے ہجر کا کھویا ہوا سامان سدا
شام ہوتی ہے تو دہلیز پہ دھر جاتا ہے
یاد نے جب سے مرے شہر میں چپ سادھی ہے
دل خود اپنی ہی بیابانی سے ڈر جاتا ہے
ہنستے گاتے ہوئے لوگوں کی بھری محفل میں
کوئی چپ چاپ ترے غم سے گزر جاتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)