گھرا ہوا ہوں ان گنت اداسیوں کے درمیاں

گھرا ہوا ہوں ان گنت اداسیوں کے درمیاں
میں دیوتا ہوں اپنی دیوداسیوں کے درمیاں
کبھی تو بھولتا ہوں گھر کا راستہ کبھی تمھیں
میں آ پڑا ہوں کیسی بدحواسیوں کے درمیاں
تو کیا کرو گے جب کوئی چراغ جل اٹھا کہیں
بہت مگن ہو اپنی بے لباسیوں کے درمیاں
اسے کہاں تم ایسا سادہ دل فریب دے سکے
رہا ہے وہ نگر نگر کے باسیوں کے درمیاں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *