ترے خیال کی بستی میں بس کے دیکھ لیا
ذرا سی دیر میں پھر خُشک ہو گیا صحرا
ہماری آنکھوں نے ہر جا برس کے دیکھ لیا
دنوں نے اپنے طریقے بھی آزما دیکھے
شبوں نے اپنا شکنجہ بھی کس کے دیکھ لیا
نہ رنگ نیلا پڑا اور نہ جان مُرجھائی
زمانے تم نے ہمیں بھی تو ڈس کے دیکھ لیا
وہی ہے دشت وہی تشنگی ہے سینے میں
ترے لیے بھی مری جاں ترس کے دیکھ لیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)