وہ قادر ہے تو راتوں کو ستارا کیوں نہیں دیتا
کوئی رستہ تو ہو آنکھوں کو دکھ میں پار لگنے کا
سمندر دے دیا ہے تو کنارا کیوں نہیں دیتا
وہ کیوں کر ایسے ویسے میرے پلّو باندھ دیتا ہے
جسے میں چاہتا ہوں وہ پیارا کیوں نہیں دیتا
وہ مجھ کو باندھ کے بیٹھا ہے کیوں اپنی محبت میں
وہ میرا دل، وہ میری جاں، خدارا کیوں نہیں دیتا
سرِ تکمیلِ غم بھی ایک شکوہ ہے مرا اُس سے
وہ آدھا چھینتا کیوں ہے وہ سارا کیوں نہیں دیتا
فرحت عباس شاہ