()
مجھے معلوم ہے
میرے بچھڑ جانے سے
تنہائی کے کتنے دُکھ
تمہاری رُوح کے گُم سُم خلا میں
سرسرا کے ٹوٹتے ہوں گے
وہ سب رستے
وہ سب دیوار و در
جن پر ہماری بولتی پرچھائیاں پڑتی تھیں
اور جن کی فضاؤں میں
ہمارے قہقہوں کی جلترنگ ایسے بجا کرتی تھی
جیسے بارشوں کی رُت گھروں کے طاقچوں پر گنگناتی ہے
ہماری آہٹوں کو مختلف قدموں میں
اکثر ڈھونڈتے ہوں گے
مِری وہ سب کتابیں جو تمہیں میں سونپ آیا تھا
تمہیں پڑھ کے یقیناً سوچتی ہوں گی
کہ یہ انسان بھی کیا منتشر اوراق ہیں بہتی ہوا کے ہاتھ میں
یہ سب مجھے معلوم ہے لیکن
نہ جانے کیوں سمے کی کوکھ سے نکلا ہوا اک بے سبب دھڑکا
مِرے معلوم کے دل کو ہمیشہ چیر جاتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)