تیر برساتے ہو بے چاروں پر
کون رہتا تھا نہ جانے اس جا
خواہشیں نقش ہیں دیواروں پر
یوں ترے چھوڑ کے جانے کا اثر
اتنا اچھا نہیں بیماروں پر
بوجھ پڑتے ہوئے اک ان دیکھا
ہم نے دیکھا ہے گنہگاروں پر
لے گیا خواب چرا کر کوئی
دل کوئی پھینک گیا خاروں پر
ایک دن آئے گا اس پستی میں
عطمتیں روئیں گی میناروں پر
سوگ میں ڈوبے نظر آتے ہیں
جب نظر ڈالی ہے گھر باروں پر
عجز کے خون سے رنگین نہ کر
زخم پڑ جائیں گے تلواروں پر
ہم تجھے روک نہیں پاتے تھے
لوٹ جاتے رہے انگاروں پر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)