اور سارے زمانے سے جدا سوچ میں گم ہے
کشتی میں بہت چپ ہے کوئی دیر سے بیٹھا
دریا کے کنارے پہ ہوا سوچ میں گم ہے
ہر موسم گل ہوتا ہے اتنا ہی تو ویراں
کیا جانئیے کیوں باد صبا سوچ میں گم ہے
کس عرش تلک جانا پڑے درد کے مارے
اٹھے ہوئے ہاتھوں پہ دعا سوچ میں گم ہے
کیا کوئی پریشانی نئی ٹوٹ پڑی ہے
اس کو ذرا دیکھو تو یہ کیا سوچ میں گم ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)