رزق پتھر سے بھی پھوٹ آتا ہے
آگ سے زندہ رہا جاتا ہے
گھیر لیتی ہے ہمیں گھر میں بھی بیٹھے بیٹھے
روز اک اور نئی مایوسی
دل کے حالات بھی مایوس کیے رکھتے ہیں
اور دنیا بھی نکلنے نہیں دیتی کسی مایوسی کی مایوسی سے
چاند سے کتنا سہارا ہے دلوں کو لیکن
چاند تو روٹھی ہوئی خاک سوا کچھ بھی نہیں
یہ ستارے جو ہمیں تھامے ہوئے رکھتے ہیں
بات تو جرات احساس کی ہے
غم بھی انساں کا سہارا ہے اگر خود کو تسلی دے لیں
جانتے بوجھتے اک جھوٹی تسلی دے لیں
پھوٹ کر روئے تو پھر کیا ہوگا
اور نہ روئے تو یہ گھبرائے ہوئے اشک بھی کیا کر لیں گے
یہ سمندر کہ جو آسان نظر آتا ہے
آسماں سر پہ تنا دھوکہ ہے
اور زمیں لگتی ہے محتاج
کہ آئے کوئی چلنے والا
دل کی کیا بات کریں پھر بھی نہیں ایسے سنبھلنے والا
وقت کا کوہ گراں بھی نہیں ٹلنے والا
اور زمانہ ہے بدلنے والا
فرحت عباس شاہ