اور میری تباہی پہ بھی آنکھیں نہیں بھیگیں
شاید تو کبھی پیاسا مری سمت پلٹ آئے
آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں دریا تری خاطر
تھی آپ کو بھی ہم سے محبت تہہ دل سے
اک وہم کے تابوت میں زندہ ہیں ابھی تک
تھی رات کی تنہائی میں شہنائی کی آواز
ہم سمجھے کہ کرلایا ہے اجڑا ہوا کوئی
سب شہر مخالف تھا مگر پھر بھی مری جاں
ہم نے تری آواز پہ لبّیک کہا تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)