سال ہم سے روز کرتے ہیں مذاق
عمر کی خاکِ رواں کو دیکھ کر ہنستے ہیں کتنی دیر تک
عمر ہم سے جانے کیوں ناراض ہے
بولتی کچھ بھی نہیں ہے
سارا کچھ ہی تو مقفل ہے یہاں
خاکِ رواں تک کھولتی کچھ بھی نہیں
سال
یوں تکتے ہیں جیسے ہم مضحکہ خیز ہوں
اور ہم
بہت معمولی و بے کار ہوں
اور رائیگاں ہوں چند لمحوں کی کسی دہلیز پر
اے ہمارے ماہ و سالِ کج مزاج
تم ہمارے آنسوؤں سے کنی کتراتے نظر آتے ہو کیوں
ہاں یہی تو ہے رواج
یہ ہماری چشم تر صدیوں پہ ہنستی ہے بہت
یہ ہماری نرم و تر پلکیں
لکیریں ڈال دیتی ہیں
ازل تا بہ ابد صدیوں کے پیکر پر
سال ہم سے روز کرتے ہیں مذاق
اور ہماری چشم تر جنتی ہے صدیوں کی
بلکتی رائیگانی پر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)