ماہی بن دریا وے سائیں

ماہی بن دریا وے سائیں
سائیں دل دیوانہ کُوکے
آنسو کریں پکار وے سائیں
رو رو آنکھیں تھک ہاریں تو
روح اٹھائے بار وے سائیں
کون اٹھائے گھائل جی پر
گری ہوئی دیوار وے سائیں
دھڑکن دھڑکن درد کراہے
سانس ہوئی بیمار وے سائیں
تم بن کس کی راہ تکیں ہم
بے چارے لاچار وے سائیں
سائیں من تڑپے ہے جیسے
ماہی بن دریا وے سائیں
زخموں کی پوشاک پہن کر
ہنسی خوشی دنیا داروں کو
پیار پریت کی راہ پہ چل کے
ہم نے دیا دِکھا وے سائیں
عمر کا بچھڑا ہوا ہمارا
کبھی اچانک یاد آئے تو
سینے کی جھیلوں سے نکلے
ظالم سرد ہوا وے سائیں
صدیوں کے بھولے بھٹکوں کو
ہجر کی بھول بھلیّاں اندر
کب تک چلتے رہنا ہو گا
بچھڑے یار ملا وے سائیں
سائیں من پنچھی گھبرائے
شالا کسی کو قید نہ آئے
اندر آتش شور مچائے
باہر کھلی فضا تڑپائے
پنجرہ مارے ڈنگ وے سائیں
خواہش خواہش کی آپس میں
چھِڑ جاتی ہے جنگ وے سائیں
کشتی پار اُتر تو جاتی
رستے میں تھا جھنگ وے سائیں
میں نے اُس کا سوگ منایا
اُس نے خوشی منائی میری
اپنی اپنی عادت مولا
اپنے اپنے رنگ وے سائیں
سائیں من پنچھی گھبرائے
سائیں دل دیوانہ کُوکے
سائیں من تڑپے ہے جیسے
ماہی بِن دریا وے سائیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – من پنچھی بے چین)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *