مسکا رہا تھا حشر اٹھانے کے ساتھ ساتھ
میں مٹ رہا تھا ان کو مٹانے کے ساتھ ساتھ
رکتے تھے ہاتھ تیر چلانے کے ساتھ ساتھ
دشمن اگرچہ تھے وہ مگر تھے تو آدمی
دل رو رہا تھا ٹھیک نشانے کے ساتھ ساتھ
تھے عشق میں عجیب سے رخنے پڑے ہوئے
خود روٹھتا تھا مجھ کو منانے کے ساتھ ساتھ
ایسا لگا کہ غم کے سوا کچھ نہیں یہاں
عالم سسک رہا تھا دیوانے کے ساتھ ساتھ
اس شہر میں عجیب تماشا ہے زندگی
ہنستے ہیں لوگ نیر بہانے کے ساتھ ساتھ
فرحت عباس شاہ
ـ(کتاب – آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں)