دیر تک تیری صدائیں مرے کانوں میں رہیں
رات کی چیخ سے گھبرا کے لرزتی آنکھیں
صبح تک خوف کی تسبیح کے دانوں میں رہیں
آرزوئیں کئی آئی تھیں ارادے لے کر
عمر بھر خواب کے ویران مکانوں میں رہیں
میرے محسوس کی پرچھائیاں تیری جانب
لمس کے قفل زدہ سرد مکانوں میں رہیں
عمر کے قاف میں کیوں درد کی ماری پریاں
اپنی قسمت سے سدا مات کے خانوں میں رہیں
تیرا ٹھہراؤ رہا برف کے گھر تک محدود
میری بے چینیاں بے چین زمانوں میں رہیں
عشق سے پہلے کہاں تھیں تری سوچیں جانے
پھر مسلسل مری سوچوں کے نشانوں میں رہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)