جو مرے غموں کے سمندروں کا غرور ہو
ہے عجیب صرتحال وہم و گمان دل
کبھی دھڑکنوں کے سکوت میں کبھی شور میں
رہے ایروں غیروں کے ہاتھ میں ترے جسم و جاں
یہ جو چاہے جانے کا شوق ہے یہ عجیب ہے
غم دل نے آنکھوں میں جال رکھے ہیں کس لیے
یہاں آنسوؤں کا کوئی پرندہ نہیں رہا
یہ جو ریزہ ریزہ بٹی ہوئی ہیں طبیعتیں
کسی روز ریت میں جھونک دیں گی ہجوم کو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)