مجھے پتہ ہے میں ایک محل خریدوں گا
لیکن تب تک شام ڈھل چکی ہوگی
وہ شام جو آخری بار ڈھلتی ہے
میں اس عمل کو تمہارے بغیر دیکھوں گا
اور میری آنکھیں آنسوؤں سے خالی ہو چکی ہوں گی
اور مجھے رو لینے کی خوشی بھی نصیب نہیں ہو گی
مجھے پتہ ہے میں ایک خوبصورت اور وسیع و عریض باغ خریدوں گا
اور اپنے دل کے مرجھائے ہوئے پھول پر دکھ سے ہنس دوں گا
تمہیں پتہ ہے مرجھائے ہوئے پھول زیادہ اکیلے ہوتے ہیں
میں پہاڑوں پر جاؤں گا
پہاڑوں کے نکھرے ہوئے موسم
مجھے میری اداسیوں کی گہرائی میں اتاردیں گے
مجھے پتہ ہے غم مجھے مشہور کر دے گا
میں بہت مشہور ہو جاؤں گا اور قدم قدم پر
پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا پھروں گا
اور اندر ہی اندر روئی ہوئی آوازیں دیتا پھروں گا
اگرچہ مجھے ابھی بہت ساری باتوں کا پتہ نہیں ہے
لیکن وہ جو دل میں تیروں کی طرح اتر جاتی ہیں
اور وہ جو آنکھوں میں ریت جھونک دیتی ہیں
اور جو روح کو شکنجوں میں جکڑ لیتی ہیں
مجھے ان کا تھوڑا تھوڑا پتہ ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)