میں سفر میں ہوں
مجھے تازیانہِ شام پڑتا ہے پیٹھ پر
وہ اُفق وہ سرخ لکیر کھنچتی ہے روح پر
کہ مجھے بتائے نہ بن پڑے
کئی سرخ لہریں مچلتی رہتی ہیں چشمِ کرب کے چار سُو
مجھے تارا تارا اذیتوں کی چمک سے کوئی نکال لے
مجھے اکھڑی اکھڑی نظر سے کوئی سنبھال لے
کہیں گر پڑوں نہ جمال سے
جو مرا مری ہی نظر میں ہے
میں سفر میں ہوں
مرا وقت خوف و خطر میں ہے
مرا غم کسی کے اثر میں ہے
یہ تمام دن جو یہاں گزرتا ہے اپنی راہ کی لاش پر
کسی تازیانے سے کم نہیں
مرا تھک کے بیٹھنا گھاس پر
ترے دور جانے سے کم نہیں
مرا اپنے آپ پہ چیخ چیخ کے دوڑنا
کسی ظلم ڈھانے سے کم نہیں
میں سفر میں ہوں
میں اثر میں ہوں
کئی دشمنوں کی نظر میں ہوں
میں ہزار خوف و خطر میں ہوں
مجھے تازیانہِ شام پڑتا ہے پیٹھ پر
ترا نام پڑتا ہے بیچ میں
درو بام آتے کہیں نہیں
مرے اس تمام نظام میں
مرے کام آئی ہے بے کلی
فرحت عباس شاہ