مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سنسان سپنے میں چھپی خواہش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں
یا پھر کسی انجان بیماری کی شدت میں
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم پرنم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمھارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی با رونق سڑک پر
اور کسی دریا، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو
میری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
میری بے چینیوں میں جب تمھاری تند خو بخشش کھٹکتی ہے
تمھاری بے سبب دوری سلگتی ہے
یا پھر جب بھی میری آنکھوں کے صحرا میں
تمھاری یاد کی تصویر جلتی ہے، جدائی ہاتھ ملتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مقدر کے ستاروں پر
زمانوں کے اشاروں پر
اداسی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر
مجھے تم یاد آتے ہو
سہانی شام ہو کوئی
کہیں بدنام ہو کوئی
بھلے گل فام ہو کوئی
کسی کے نام ہو کوئی
مجھے تم یاد آتے ہو
کہیں بارش برس جائے
کہیں صحرا ترس جائے
کہیں کالی گھٹا اترے
کہیں باد صبا ٹھہرے
تمھارے اور میرے درمیاں آ کر خدا ٹھہرے
تو میری زندگی کے اول و آخر
تم اس لمحے
خدا کے بعد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
فرحت عباس شاہ